Visit Sponsor

Written by 6:19 am Blog

کیا کراچی بھی موہن جو دڑو کی طرح تباہ ہوجائے گا؟

تحریر: رافعہ زکریا

اگر الفاظ سے لوگوں کو ٹھنڈا کیا جاسکتا تو ان دنوں لکھاری کافی مصروف ہوتے۔ جیسا کہ پہلے کی نسبت گرمی کی شدت کئی گنا بڑھ چکی ہے، لکھاری کے لیے یہ زیادہ پُرکشش ہے کہ وہ ایسی باتوں پر کالمز لکھیں جو اس سخت موسم کی گرم حقیقت سے لوگوں کی توجہ ہٹا سکے کہ جس کا پاکستان کی اکثریتی آبادی کو سامنا ہے۔

کاش ایسا ممکن ہوتا! لیکن جب قیامت خیز گرمی کو قابلِ برداشت بنانے کی بات آتی ہے تو الفاظ ناکام ہوجاتے ہیں۔ پسینہ، پانی کی کمی اور ہیٹ اسٹروک وہ حقیقی خطرات ہیں جو اس گرم ترین موسم میں لوگوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں جبکہ اس پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔

اس سے بھی زیادہ پریشان کُن حقیقت یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ہم جس بلند ترین درجہ حرارت کا سامنا کررہے ہیں، مستقبل میں اس میں مزید اضافہ ہونے کے خدشات موجود ہیں۔

موجودہ آفات سے انحراف کی ایک اور حکمت عملی یہ ہے کہ اسے تاریخ سے منسوب کرلیا جائے۔ سوچ کی حد جتنی وسیع ہوگی اور جتنا ماضی میں جائیں گے، اتنا ہی زیادہ انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں انسانوں کو درپیش تقریباً ہر تباہی کا سامنا ماضی کے انسانوں کو بھی رہا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں قدیم شہر موہن جو دڑو میں پارہ 52 ڈگری تک پہنچ گیا۔ یہ وہی بستی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 2500 قبل مسیح پرانی ہے، اس کا شمار ان چند مقامات میں کیا جاسکتا ہے جو ہمیں ماضی کے موسم اور موسمیاتی آفات کے حوالے سے معلومات فراہم کرتی ہیں۔

موہن جو دڑو کی ریت اور مٹی کی تہوں کے تجزیات سے اندازہ ہوا کہ آبادکاری کے دوران شہر میں کئی بار سیلاب آیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان سیلابوں نے بھی اسی طرز کی تباہی مچائی جو ہم حالیہ سالوں میں سندھ میں آنے والے سیلابوں کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ آثار قدیمہ کے اسکالرز نے طویل عرصے سے اس بات پر بحث کی کہ انڈس ویلی سویلائزیشن (وادی سندھ کی تہذیب) کی مرکزی بستی موہن جو دڑو کے معدوم ہونے کی کیا وجوہات تھیں۔ ماہرینِ آثار قدیمہ کے مطابق اس ترقی یافتہ شہر میں صفائی کا بہترین نظام اور اچھی سڑکیں بنی ہوئی تھیں، لیکن اسے یونہی تباہ ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔

اگرچہ یہ تو واضح نہیں کہ موہن جو دڑو کی تباہی کی حتمی وجہ موسمیاتی تبدیلی تھی لیکن یہ واضح ہے کہ یہ علاقہ ٹیکٹونک تبدیلیوں (زمین کی تہوں میں رونما ہونی والی تبدیلیاں) کے نتائج بھگت رہا تھا۔ اس کے ثبوت ہمیں ان قدیم تاریخی ساحل یا جزائر میں بسنے والے شہروں کی صورت میں ملتے ہیں جوکہ پہلے سمندر میں جاچکے تھے لیکن اب ان کے آثار ہمیں ملتے ہیں۔ ان شواہد سے پتا چلتا ہے کہ سمندری حیات ایک ایسے مقام پر موجود تھی جو اندرون ملک سے کافی دور تھا جبکہ پری ہسٹورک دور (یعنی تاریخ لکھنے سے قبل کا دور) سے پہلے کے زمانے میں بہت سے مقامات آج کی نسبت سمندر کے زیادہ قریب تھے۔

ممکنہ طور پر سندھ اور بلوچستان میں ٹیکٹونک تبدیلیاں، ساحلی پٹی کو تبدیل کرنے کا سبب بنیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہی نقل مکانی اور آبادیاتی تبدیلیوں کا سبب بھی بنی ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث بار بار آنے والی آفات اس زمانے میں موہن جو دڑو جیسے ترقی یافتہ شہروں کے لیے بھی ناقابلِ برداشت تھیں۔

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں موسمیاتی تبدیلی کے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے موسم میں نمایاں تبدیلی کافی خوفناک ہے۔ آج سے دو دہائی قبل کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ پارہ 52 کی حد کو چھو جائے گا۔ اس وقت سیلاب اور شدید بارشیں بھی نایاب ہوا کرتے تھے۔

پاکستان کے شہروں کو جہاں قدرتی آفات سے آنے والی تباہی کا سامنا ہے وہیں ہم نے تلخ تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پیشگی اقدامات میں وسیع پیمانے پر کرپشن، عدم دلچسپی اور بے حسی کی وجہ سے عوام کا کوئی پُرسان حال نہیں اور انہیں اپنی مدد آپ کرنا پڑ رہی ہے۔ رواں سال شدید گرمی کے بعد یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ ایک بار پھر بارشوں اور سیلاب کا دور آئے گا اور پھر ہمارے شہروں کو اربن فلڈنگ کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جرمن ترقیاتی ادارے GIZ کی طرف سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ میں سامنے آیا کہ آنے والے دنوں میں حالات کس حد تک سنگین رخ اختیار کرنے والے ہیں۔ 2080ء تک ملک کا مجموعی اوسط درجہ حرارت 4 ڈگری تک بڑھ جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ علاقے جن کا درجہ حرارت حالیہ دنوں میں 40 سے اوپر ہے، وہ مستقبل میں انسانوں کے لیے ناقابلِ رہائش ہوجائیں گے کیونکہ انسان ایسے موسم میں زندگی نہیں گزار پائیں کہ جہاں موسم اس پر شدید اثرانداز ہورہا ہو۔

سمندر کی سطح میں بھی 40 سینٹی میٹرز کے اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ اس اضافے کی وجہ سے وہ ساحلی علاقے بھی سمندر میں ڈوب جائیں گے جن پر ساحل دور ہوجانے کی وجہ سے تعمیرات کرلی گئی تھیں۔ ماضی میں ٹیکٹونک پلیٹس میں تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر پیچھے چلا گیا تھا اور اب سطح میں ممکنہ اضافے کی وجہ سے سمندر ایک بار پھر اس زمین پر دوبارہ غالب آجائے کہ جو ہزاروں سال پہلے اس کی تھی۔

تاریخ سے پہلے کے زمانے میں آنے والی موسمیاتی تبدیلی نے خشک سالی کے حالات کو جنم دیا۔ اس وقت پانی کی فراہمی میں مشکلات (جس کا سامنا آج کے لوگ بھی کررہے ہیں) کی وجہ سے انفرااسٹرکچر اور زراعت کو نقصان پہنچا۔ یہ قابلِ فہم ہے کہ خارجیوں کے حملے اور قدرتی آفات کی وجہ سے ہزاروں سال پہلے انڈس ویلی سیویلائزیشن تباہ ہوگئی۔

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق چیلنجز جیسے قحط اور سندھ کے شہروں میں شدید گرم درجہ حرارت (جس کا سامنا آج کراچی کو بھی ہے)، احساس پیدا کرتے ہیں کہ گویا ہم اپنے اختتام کی جانب جارہے ہیں۔ یہ تصور کرنا انتہائی مشکل ہے کہ آیا ماضی کے لوگوں کو اس بات کا ادراک تھا کہ وہ جسے اپنا گھر کہتے ہیں، اپنے وجود کی بنیاد کہتے ہیں، اس کا نام و نشان یوں مٹ جائے گا۔

میرا خیال یہ ہے کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کیونکہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ پاکستان کے عوام شدید گرمی کا سامنا کررہے ہیں جہاں وہ چھاؤں اور پانی کی تلاش میں نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی یہ امید بھی کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں موسم کچھ بہتر ہوگا۔ امیدیں لگانا لوگوں کی فطرت میں ہے۔ بدقسمتی سے ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ صورتحال بہتر نہیں ہوگی بلکہ آنے والے دنوں میں وہ علاقے جہاں لوگوں کا مسکن ہیں، سمندر میں ڈوب جائیں گے جبکہ درجہ حرارت اس حد تک بڑھ جائے گا کہ قحط سالی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ مختصر یہ کہ لوگوں کے لیے ایسے ماحول میں زندہ رہنا دشوار ہوجائے گا۔

پوری دنیا اس وقت ایسے دور سے گزر رہی ہے کہ جہاں ہم اپنے آنکھوں کے سامنے تہذیبی تبدیلیاں رونما ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ گلیشئرز پگھل رہے ہیں، دریاؤں میں سیلاب آرہے ہیں، سمندروں کی سطح میں اضافہ ہورہا ہے اور گرمی اور تپش کی وجہ سے حالات بےقابو ہورہے ہیں۔ یہ کسی صورت ایسا دور نہیں کہ حالات کی سنگینی کو نظرانداز کردیا جائے بلکہ گمان ہوتا ہے کہ انسانوں کو اس سے کوئی فرار حاصل نہیں۔

Visited 14 times, 1 visit(s) today
[mc4wp_form id="5878"]

Last modified: June 8, 2024

Close