Visit Sponsor

Written by 12:34 pm Blog

مہاجر تشخص اور ہماری تنگ نظری

تحریر: رضوان طاہر مبین
پاکستان اور بالخصوص سندھ میں جب بھی ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کے مسائل کی بات ہوتی ہے تو کوئی نہ کوئی ان کے تشخص سے لے کر بنیادی حقوق تک پر ایسے مباحث شروع کردیتا ہے، جو پہلے ہی بیان کیے جاچکے ہوتے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ ’نیپ‘ کے محمود الحق عثمانی کے زمانے کے واضح استدلال دہرانے پڑ جاتے ہیں۔ مہاجروں کا تشخص یا انھیں الگ قوم نہ ماننے والوں کی ایک بڑی نظیر انھیں ’اردو گو‘ یعنی انگریزی میں ’اردو اسپیکنگ‘ کہنا یا پھر ’اردو بولنے والے سندھی‘ کی ترکیب سے پکارنا شامل ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہر قوم کا نام لیا جاتا ہے لیکن مہاجروں کو ’اردو بولنے والے‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ آپ نے سندھی بولنے والا پشتون، پشتو بولنے والا سندھی یا پنجابی بولنے والا سندھی جیسی اصطلاح کبھی نہیں سنی ہوگی کیونکہ آپ ایک قوم کے فرد کو زبردستی دوسری قوم میں شمار نہیں کرسکتے۔ اس لیے کراچی والوں کا بنیادی مسئلہ حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دیگر قوموں کی طرح ان کے بھی علاحدہ تشخص سمیت تمام بنیادی حقوق تسلیم کیے جائیں تاکہ مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوششوں کی طرف مرکوز ہوا جا سکے۔
مہاجروں پر عام ’تارکین وطن‘ کا کلیہ لاگو نہیں کیا جاسکتا! اس بارے میں پہلا عمومی موقف یہ سامنے آتا ہے کہ دنیا بھر میں جو کوئی ہجرت کرتا ہے تو اسے نئی جگہ کا بن کر رہنا پڑتا ہے۔ یہ اس زمین کا ’احسان‘ تصور کیا جاتا ہے جس نے اسے ’پناہ‘ دی۔ بظاہر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے لیکن 1947 کے بعد ہندوستان سے نقل مکانی کرکے آنے والوں پر اس کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک مملکت کے قیام کی جدوجہد کا نتیجہ تھا اور ہجرت کرنے والوں نے آزادی کی تحریک میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا تھا۔
پاکستان کے قیام کا فیصلہ 1946 کے انتخابات کے نتیجے میں ہوا۔ اس میں ہندوستان بھر کے مسلمانوں کی 30 مخصوص نشستوں میں سے صرف 13 نشستیں اس جغرافیے کا حصہ بننے والے علاقوں کی ہیں۔ یعنی چھ، چھ بنگال اور پنجاب کی اور ایک سندھ کی، جبکہ باقی 17 نشستیں (یعنی 56 فیصد) یوپی، سی پی، بہار، چنائے، آسام، دلی اور بمبمئی جیسے علاقوں کی تھیں، جو پاکستان میں شامل ہی نہیں ہوئے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس نئے ملک پر ان علاقوں کے لوگوں کا بھی برابر کا حق تسلیم کیا جائے۔ انھیں ’تارکین وطن‘ یا ’پناہ گزیں‘ نہ سمجھا جائے۔ انھیں ”باہر“ سے آیا ہوا جتاکر کسی بھی حق سے محروم نہ کیا جائے۔ 1950 میں ’لیاقت نہرو پیکٹ‘ کے تحت دونوں جانب ہجرت کرنے والوں کی املاک سے متعلق یہ طے ہوا کہ ہندوستان میں اپنی زمینیں یا جائیداد چھوڑ کر آنے والوں کو ازالے کے طور پر سرحد کے دوسری جانب نقل مکانی کرکے جانے والوں کی املاک دی جائے گی۔ دوسری طرف اِن کی متروکہ املاک پر بھی یہاں سے وہاں جانے والے کا حق تسلیم کیا گیا۔ اب ایسے لوگوں پر ’تارکین وطن‘ اور ’پناہ گزیں‘ والے اصول لاگو کرنے کو تجاہل عارفانہ کہیں یا کچھ اور، آپ ہی فیصلہ کر لیجیے۔
اپنی شناخت کی بات کرنا ہمارا بھی بنیادی حق ہے۔ ملک کی ’پانچویں قومیت‘ کے تمام بنیادی حقوق کو بھی اسی طرح کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے، جیسے باقی چار قومیتوں کے کیے جاتے ہیں۔ پانچویں قومیت سے تعلق رکھنے والے دانش ور معذرت خواہانہ طرز عمل سے جان چھڑائیں! اپنے حق کی بات کرنے کا مقصد کبھی یہ نہ سمجھیں کہ آپ کسی اور سے نفرت کا اظہار کررہے ہیں! آپ مستقل طور پر ایک جگہ رہتے ہیں، آپ کی اپنی زبان، ثقافت اور رکھ رکھاﺅ ہے، جو آپ کو باقی لوگوں سے واضح طور پر الگ کرتا ہے۔ یہ آپ کا آئینی اور سماجی حق ہے کہ آپ اپنی شناخت کی حفاظت کریں اور اس کے لیے ملک میں آپ کا کوئی شہر یا صوبہ اس طرح ہو، جو پہلے آپ کے لیے ہو اور آپ سے خاص منسوب ہو۔ دوسروں کے دوش پر رہ کر ٹھوکریں کھانا اور شناخت کے ذکر پر بغلیں جھانکنا آخر کب تک؟ آگے بڑھیے اور بتائیے کہ مہاجروں سے سندھی بننے کی تلقین غیر فطری اور خاصی غیر منطقی ہے۔
کوئی بھی شخص راتوں رات اپنا مذہب اور اعتقادات ضرور تبدیل کرسکتا ہے لیکن اپنی زبان، رنگ و نسل اور ثقافت کسی طرح نہیں بدل سکتا۔ ماہرین سماجیات کہہ چکے ہیں کہ زبانوں اور ثقافتوں میں تبدیلی کا عمل طویل وقت لیتا ہے۔ ایسے میں کیوں یہ توقع کی جاتی ہے کہ مہاجر چند دہائیوں میں اپنی پہچان اور اپنے بزرگوں کا سارا سماجی اور ثقافتی ورثہ تج دیں؟ دانستہ اپنی پہچان کوئی نہیں کھونا چاہتا، تو پھر انھیں علاحدہ شناخت پر کیوں مطعون کیا جاتا ہے؟ جب کراچی اور سندھ میں ایک زمانے سے آباد بلوچ تو آج بھی بلوچ ہی کہلاتے ہیں اور اسی طرح پنجابی اور دیگر قومیتیں بھی اپنی اپنی شناختوں کے ساتھ موجود ہیں۔ تو صرف مہاجر قوم سے ایسا مطالبہ کیوں؟
صرف سندھ میں پیدا ہونے سے کوئی ’سندھی‘ نہیں ہوسکتا! ہمارے کچھ احباب ’جغرافیائی استدلال‘ کرتے ہوئے بھی یہ کہتے ہیں کہ چوں کہ ’مہاجر‘ سندھ میں رہتے ہیں، اس لیے ’سندھی‘ ہیں۔ یا سندھ میں پیدا ہوئے تو ’سندھی‘ کہلائیں گے! اول تو نسل اور قوم کا تعلق جائے پیدائش سے نہیں کیا جاسکتا۔ دوم یہ کہ سندھ میں سندھی رہتے ہیں اور سندھی بالکل الگ قوم ہے۔ لیکن یہ دھیان رکھیے کہ ’سندھی‘ کوئی شہریت ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے ملک کے مردم شماری کے کاغذات میں مادری زبان کا خانہ تو ہوتا ہے، لیکن قوم کا نہیں۔ کسی قوم کا تعین عام طور پر اس کی زبان ہی سے کیا جاتا ہے۔ البتہ پاکستان ایک ریاست ہے۔ اس پر جغرافیائی استدلال اس حد تک ممکن ہے کہ ہم اس کے شہری ہیں۔ جو یہاں پیدا ہوا، وہ ’پاکستانی‘ شہریت کا حق دار ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ملک بھر میں باقی ذیلی لسانی وثقافتی اکائیاں کہلائیں گی۔ مہاجروں کے حوالے سے یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انھوں نے آزادی کی جدوجہد ’پاکستان‘ کے لیے کی تھی اور ان کی ہجرت بھی ’پاکستان‘ کی طرف تھی، نہ کہ کسی صوبے کی طرف! اس لیے تاریخی طور پر بھی وہ ’پاکستانی‘ ہی کہلائیں گے اور ذیلی شناخت میں مہاجر۔ یا اگر ہمارے محب وطن منہ نہ بنائیں، تو نسلی طور پر ”ہندوستانی نژاد پاکستانی!“ کہنا چاہیے۔ چوں کہ ہندوستان سے نفرت ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہے، اس لیے لفظ ’ہندوستانی‘ حلق سے ذرا مشکل سے اترتا ہے۔ بلکہ اگر کوئی ’ہندوستانی‘ کہتا ہے تو اکثر اس کا مقصود ہتک کرنا ہوتا ہے، اگرچہ بہت سے حلقوں میں پہچان کے لیے اب بھی ’ہندوستانی‘ سنا اور بتایا جاتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی اپنی مرضی سے اپنی قوم نہیں چُنتا۔ پھر ’ہندوستانی‘ کہتے ہوئے یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ جب پاکستان بنا ہی نہیں تھا تو سب اپنی ذیلی شناختوں کے ساتھ ’ہندوستانی‘ شہری ہی تھے۔
جب صرف ’پاکستانی‘ تھے تو ’مہاجر‘ پکارا اور آج کہتے ہیں ’پاکستانی‘ بنو! رہی بات ’مہاجر‘ کے لغوی معنوں پر بحث کرنے کی، تو یہ تمام مباحث دہائیوں پہلے نمٹ چکے۔ وقت گزرنے اور مختلف واقعات رونما ہونے کے بعد اب اس کے معنی فقط ہجرت کرنے والے کے نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ہندوستان کے ان علاقوں سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے ہیں، جن کے علاقے پاکستان کاحصہ نہ بن سکے۔ ’مہاجر‘ اس نئی مملکت میں انھیں لوگوں کی ثقافتی پہچان ہے، جو درحقیقت یہیں کے سماج نے انھیں عطا کی ہے، وہ وہ خود کو صرف اور صرف پاکستانی کہتے آئے تھے۔ لیکن یہاں انھیں نہ جانے کون کون سے القابات سے نوازا گیا جس میں سے انھوں نے لفظ مہاجر کو اپنی شناخت بنالیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وہ خود کو فقط پاکستانی کہتے تھے، تب دوسرے لوگ القابات دیتے رہے۔ جب وہ خود کو فخریہ اندازہ میں ’مہاجر‘ کہنے لگے، تو بعض لوگوں کی تیوری پر بل پڑنے لگے کہ ”مہاجروں کے تو کیمپ ہوتے ہیں“ اور ”مہاجر تو کوئی قومیت نہیں ہوتی“ یا پھر یہ کہ تم 70 سال بعد بھی مہاجر ہو؟ پاکستانی بنو! حالاں کہ یہ بات وہ بھی جانتے ہیں کہ جیسے نسلی طور پر سندھی، پنجابی، بلوچ اور پشتون ہوتے ہوئے کسی کی’پاکستانیت‘ پر کوئی فرق نہیں پڑتا، بالکل ویسے ہی خود کو’مہاجر‘ کہنے والا کسی بھی سطح پر اپنے ’پاکستانی‘ ہونے کا انکار نہیں کرتا۔ رہی بات مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آنے والوں کی، تو انھوں نے اپنے ہی صوبے میں ہجرت کی، اس لیے وہ باآسانی اپنی قوم کا حصہ بن گئے اور ساتھ ہی وہاں کی اکثریتی ثقافت میں ہونے والے سماجی عمل کے باعث ہندوستان کے دوسرے صوبوں سے ہجرت کرنے والوں کی بھی ایک معقول تعداد ان میں ضم ہوگئی۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ وہ باتیں ہیں، جنھیں پڑھ کر بہت سے لبرل افراد بھی تیوریاں چڑھائیں گے اور مذہبی افراد بھی اپنی الگ توجیہ کے ساتھ بگڑیں گے۔ اور رہا ’محب وطن‘ تو اس کی نظر میں ہم کم از کم متعصب تو ضرور قرار پائیں گے۔ لیکن ذرا ٹھنڈے دل ودماغ سے جائزہ لیجیے۔ اگر آپ کھلے دل سے ’مہاجر‘ کو اس ملک کی اسی طرح لسانی اکائی مانتے ہیں، جیسے باقی سب ہیں، تو پھر کیا اس کا حق نہیں کہ اس ریاست میں کوئی شہر اس کا اپنا ہو، جسے وہ اپنا گھر اور ’ہوم گراﺅنڈ‘ سمجھے؟ جہاں اس کی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر اسے ثقافتی معدومیت سے دوچار نہ کیا جائے؟ یہاں بہت سے لوگ دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے کہ 1947 میں آپ لوگوں کی ہجرت نے بھی تو کراچی میں یہی کیا، یہاں کے بڑے نسلی گروہوں کو اقلیت میں بدل دیا۔ تو ان کی اس بات کا جواب تاریخ اور ’بانیان پاکستان‘ کی جانب جاتا ہے۔ اس میں ہجرت کرنے والوں کا کوئی قصور نہیں۔ ہمارے دانش وَروں کی انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ وہ 1930 کے کراچی کی تصویر لگاکر کہتے ہیں کہ دیکھو، جب مہاجر ہندوستان میں تھے تو کراچی کتنا خوب صورت تھا۔ یعنی 1930ءمیں مہاجر ہندوستان میں تھے تو کیا کراچی میں پاکستان بن گیا تھا؟
اس کے ساتھ یہ استدلال بھی ہوتا ہے کہ مہاجر باہر سے آگئے، تو اب بھی سب اسی طرح آتے رہیں، مہاجروں کا اس پر اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بھی وہی سوچ ہے کہ جو ہندوستان سے آنے والوں کو ’تارکین وطن‘ ’فساد زدہ‘ یا ’پناہ گزیں‘ سے زیادہ کچھ تصور نہیں کرتی، تبھی وہ کراچی پر مہاجروں کا اولین حق تسلیم کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ باقی لسانی اکائیوں کے اپنے اپنے علاقے موجود ہیں، جب کہ مہاجروں کا جینا مرنا اب اسی شہر کے ساتھ ہے اس لیے ان کا کراچی پر پہلا حق تسلیم کیا جانا چاہیے! الگ صوبے کا ذکر ہو اور ہمارا ’دانش ور‘ اگر کسی سطح پر سندھ میں نئے صوبے کی بات کر بیٹھے، تو ایک سرد لہجے میں انتظامی کی’پخ‘ لگانا اور ’لسانی‘ کی مدافعت کرنا ضروری سمجھتا ہے! آخر کیوں؟ جب سب لسانی اکائیاں ایک حقیقت ہیں اور ہم صوبہ سرحد کو بھی انھیں کی قوم کا نام دے چکے ہیں، تو پھر آخر حرج ہی کیا ہے؟
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کراچی میں اب اتنے لاکھ فلاں اور اتنے اتنے لاکھ فلاں، فلاں قوم کے لوگ بس گئے ہیں۔ اب اگر ’لسانی‘ صوبے کی بات کرو گے تو تمھیں صرف ضلع ’وسطی‘ یا ضلع ’کورنگی‘ ہی ملے گا! یعنی آپ اہل قلم و فکر کی ’گنجائش‘ کا اندازہ لگائیے۔ کیا بہت سے حلقے اس امر کی حمایت نہیں کرتے کہ بلوچستان بنیادی طور پر بلوچوں کا صوبہ ہے، اس لیے انھیں اقلیت میں نہیں بدلنا چاہیے اور مختلف قوانین نافذ کرکے ان کے حقوق کا تحفظ کیا جانا چاہیے، جیسا کہ وہاں دیگر صوبوں سے آنے والوں کو مخصوص عرصے تک مستقل رہائش کے بعد ہی بلوچستان میں ووٹ کا حق دینا چاہیے وغیرہ۔ لیکن جب کراچی کی بات آتی ہے تو انھیں مہاجر تشخص کے تحفظ کے لیے ایسے کسی کلیے کو لاگو کرتے ہوئے پریشانی ہونے لگی ہے۔ بلکہ بہت سے ’دانش ور‘ تو اس امر پر اپنے اطمینان کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ کراچی کو اصل کماکر دینے والا ضلع ’جنوبی‘ مجموعی طور پر مہاجر اکثریت سے محروم ہوگیا ہے۔ یعنی وہ ہر ایسے واقعے اور معاملے کو، جو مہاجروں کو پَسپا کررہا ہو، اپنی دلیل بنانے لگے ہیں، کیوں کہ بنیادی طور پر شاید انھیں یہ پسند نہیں کہ مہاجر یہاں اپنے تشخص اور خودمختاری کے ساتھ تمام ریاستی حقوق سے استفادہ کرسکیں۔ مجھے نہیں پتا کہ اس کی کیا وجہ ہے!
(ختم شد)



Visited 19 times, 1 visit(s) today
[mc4wp_form id="5878"]

Last modified: June 19, 2024

Close