سرینا موبائل مال پر سعد احمد کی شہادت سے آپ سب واقف ہیں۔ میرے اور میرے کئی دوستوں کے لیے یہ ایک ذاتی نقصان ہے۔ سعد سے میرا تعلق سولہ برس پر مشتمل تھا۔ ہم پی ٹی سی ایل میں ملازمت کیا کرتے تھے.
پہلی ملاقات بھی دلچسپ تھی۔ سعد مارننگ شفٹ سے نیا نیا ایوننگ میں آیا تھا۔ دو ہزار آٹھ میں ان دنوں کراچی میں ڈبل سواری بند تھی، میں نے سعد کو ڈبل سواری پر جاتے دیکھا تو کہا کہ بھائی ڈبل سواری بند ہے۔ کہنے لگا “سر رات میں کوئی ٹینشن نہیں ہے” میں نے پوچھا کیوں؟ ہنستے ہوئے کہنے لگا “سر میں اندھیرے میں نظر نہیں آتا”۔ اپنی رنگت کا مذاق خود اڑاتا تھا۔ غالباً کسی اسٹیج ڈرامے کا کوئی ڈائیلاگ تھا جو وہ خود اپنے لیے بولا کرتا تھا کہ “میرے آگے تو کوئلہ بھی اکڑ کر چلتا ہے”۔ ایسا ہنس مکھ انسان تھا۔ کوئی کچھ بھی کہہ دے مسکراتا رہتا، ہنستا رہتا۔
سعد گھر سے کھانا لایا کرتا تھا، میں اور خرم اس کے کھانے پر ٹوٹ پڑتے تھے اور وہ ہمارے لیے اضافی کھانا لانے لگا۔ ہم نے اس کے کھانے کو “ماں کا ہاتھ” قرار دیا اور پھر یوں ہوا کہ وہ خود ہمیں دعوت دیتا اور کہتا کہ “احمد صاحب آجائیں ماں کا ہاتھ لایا ہوں، آپ کے لیے ٹماٹر زیادہ ڈلوائے ہیں”
انتہائی با ادب اور محبت کرنے والا، نہایت محنتی انسان۔ ہنسنے والا، ہنسانے والا ہمارا بھائی ایک جنونی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سعد نے وڈیوز بنانا شروع کیں تو اکثر بات ہوتی تھی، اپنی وڈیوز بھیجا کرتا تھا، اسے وائرل ہونے کا شوق تھا، کسے خبر تھی کہ ہمارا بھائی ایسے وائرل ہوگا 😭😭
انتقال کی رات میں سعد کے گھر پہنچا، اس کے والد کو دیکھا تو وہ عزم و ہمت کا پہاڑ نظر آئے، ان کا باطن تو بکھرا ہوا ہوگا لیکن ان کا ظاہر دیکھ کر رشک آیا، جس طرح وہ لوگوں سے ملے ہیں، جس طرح انہوں نے اس غم کو سہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اتنا حوصلہ کہاں سے آیا میں نہیں سمجھ سکا۔
خدا کرے کہ اس مردود قاتل کو اس کے کیے کی سزا ملے، خدا اس شہر کے نمائندوں کو اتنی غیرت دے کہ وہ سیکورٹی کمپنیز کے لیے کوئی موثر قانون سازی کرا سکیں۔ خدا سعد کے والدین کو ہمت دے، خدا سعد کے بچوں کا مستقبل سنوار دے اور خدا اس قوم کی بھی غیرت جگائے جو گائے بھیڑوں کی طرح حلال ہو رہی ہے مگر ایک ہو کر اٹھتی نہیں!!!
احمد اشفاق
Last modified: June 8, 2024